حريفِ آدم

450

نصیر احمد ناصر نے جمالیات جیسے ٹھوس اور دقیق فلسفیانہ مضمون کی مبسوط تاریخ لکھی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جمالیات کی روح میں ڈوب کر لکھی ہے۔ انہوں نے غالبؔ اور اقبالؔ کے کلام کو فلسفہ جمالیات کے رشتے سے سمجھا اور سمجھایا ہے اور ان دونوں بڑے شاعروں … کے کلام کے متعلق گہری فکر انگیز اور پتے کی باتیں کہی ہیں اور یوں جمالیات، غالبیات اور اقبالیات میں کئی وقیع، حسین، جمیل اور بعض حیثیتوں سے جلیل القدر اضافے کیے ہیں۔ حریفِ آدم کا موضوع آدم، حوّا اور ابلیس کا وہ معروف واقعہ ہے جسے صحفِ سماوی نے بار بار دہرایا اور اُس سے خیر و شر کی قدروں کو نمایاں کرنے کا کام لیا ہے۔ اس سیدھے سادے قصے میں کہانی کی کتنی رنگین اور دل نشین جزئیات موجود ہیں اس کا اندازہ نصیر احمد ناصر کے لکھے ہوئے اس افسانے کو پڑھ کر ہوتا ہے۔کہانی کا ہر کردار اپنے مزاج کے اعتبار سے جو کچھ کہتا اور جو کچھ کرتا ہے اُس کی چھپی ہوئی کیفیتیں آئینے کی طرح روشن ہو کر نظر کے سامنے آ جاتی ہیں۔ یہ داخلی کیفیتیں ایک طرف تو کہانی کی دلکشی میں اضافہ کرتی ہیں اور دوسری طرف اس کی اخلاقی اساس کو ابھارتی ہیں

Categories: ,